لال آٹے کی روٹی کھائیں صحت مند وفٹ ہو جائیں


 معدے سے بنائی بنی روٹیاں ولیے  سے محروم ہوتی ہیں یعنی چھانتے  وقت بھوسی نکال لی جاتی ھے یہی عمل مضر صحت ھوتا ھے ریشہ نہ ہونے کے سبب اسے کھانے والے قبض کا شکار ھوجاتے ہیں اور یہ تکلیف چالیس برس کی عمر میں حد سے بڑھنے لگتی ھے روٹی اور خاص طور پر پراٹھوں کے لیے سفید آٹا استعمال کرنا ہرگز ذہین لوگوں کا کام نہیں اور تو اور امریکی بھی بے چھنےآٹے کی ایک روٹی کھانا پسند کرتے ہیں ہمارے ہاں بے چھنےآٹے کی روٹیوں کے مقابلے میں میدے یا سفید اٹے کی روٹیاں اور ڈبل روٹی کھانا پسند کرتے ہمارے ہاں بے چھنے

اٹےکی  روٹیوں  کے مقابلے میں سفید آٹے کی چپاتیوں  تندوری نانوں اور پراٹھوں کا استعمال بڑھ گیا ہے خاص کار دعوتوں میں لال آٹے کی چپاتی  کا رکھا جانا  خود مزبان بھی ذرا ہلکا کام سمجھتے ہیں اور اسے کنجوسی سے تعبیر کرتے ہیں یہ رویوں ہی نہیں بگڑی ہوئی غذائی  عادتوں کا حال ہے مہمان  تو طوعا و کرہا پیش کی جانے والی ہر چیز چکھے اور کھائے گا مگرمیزبان خود ساختہ احساس کمتری کے بوجھ تلے دب کر معدے پر بھی ظلم کرنے  کو مستعد ہو جاتا ہے میدے سے بنی روٹیاں دلیے سے محروم ہوتی ہیں یعنی جھانتے وقت بوسی نکال لی جاتی ہے  یہی عمل مضرصحت ہوتا ہے  ریشہ نہ ہونے کے سبب ا سے کھانے والے قبض کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ تکلیف چالیس برس کے عمر میں حد سے بڑھنے لگتی ہے پھر لوگ ہاضم ٹکیوں کی مدد لیتے ہیں یا فروٹ سالٹ سے ہاضمہ بہتر بنانے کی مصنوعی کوشش کرنے لگتے ہےحالانکہ آسان سی بات ہے کہ روزمرہ کھانوں کے ساتھ بے چنے آٹے کی روٹی کھا لی جائے جس میں ریشہ موجود ہوتا ہے اس سے آنتوں میں پانی زیادہ جز ب ہوتا ہے اور غذا جلد ہضم نہیں ہوتی ہے آنتوں کی حرکت بتاتی ہے اس طرح قبض کا تدارک ہوتا ہے اگر امریکی خوراک میں سفید آٹے سے بنی روٹیاں اور بن وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو نقصان کی صورت میں امراض قلب ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے امراض بھی جھلیتے ہیں اسی لیے یہ تصور ختم ہونا چاہیے کہ بےچھنا آٹا کھانا باعث عزت و افتخار یا خوشحالی کا سمبل ہے  ماہرین کہتے ہیں کہ روزانہ پچیس سے تیس گرام ریشہ خور اک میں شامل کرنا چاہیے اگر آپ سفید آٹے یا میدے سے بنے پراٹھے پوریاں  اور دیگر اشیاء کھانے کی عادت اپنا لیں تو اپ کولال اٹا بےچھنااٹا بہت بد ذائقہ معلوم ہوگا نہایت باریک پسےگندم کے آٹے کی روٹی کو موٹے موٹے آٹے کے مقابلے میں میدے ہی کی طرح مزے دار بنایا جا سکتا ہے یعنی انتہائی چٹکی برابر نمک اور دو قطرے زیتون کے تیل ملا کر آٹا گوندھے یہ روٹیاں پک  کر نہ سخت ہون گی  نہ بےمزا اور یہ اپنے پیاروں کے لیے صحت و تندرستی کا نایاب تحفہ ہو سکتا ہے دراصل جن افراد کی انتون کو چھنا ہوا آٹا کھانے کی عادت اور  ہضم کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے وہ نسبتا موٹے بھاری اورزیادہ خمیر   والی یہ سفید روٹی ہضم نہیں کر پاتے چونکہ  اس اٹے میں نمک کی  مقدار زیادہ شامل کی جاتی ہے اس طرح بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوتا ہے یوں تو یہ تندوری روٹی بھی سفید گندم سے ہی تیار ہوتی ہے اسے کھانے والوں کے خون میں گلوکوز اور انسولین کی سطح برھتی نہیں ہےبڑی انت سے گزرکر یہ اٹا مزید خمیرہ ہوگا اور یہ خمیری  اٹا کینسر سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوگا  اس عمل سے وٹامن بی تیار ہوتا ہے اور بریک پسے ہوئے آٹے سے آنتوں میں گیس پیدا نہیں ہوتی ہوتا ہے پیٹ کی بےشمار بیماریوں کی ایک اہم وجہ فائبر کی کمی ہے آٹا میں موجود بھوسی کو بے ذائقہ سمجھ کر مت نکا لئے   یہ بھوسی   کے ذریعے  حیاتین کا ایک خزانہ خوراک میں شامل رکھیےآٹا کا یہ چھان پرانی قبض اور دیگر امراض کیلئے بہترین دوا ہے   فائبر کے لیے وٹامن بی کے حصول کا آسان نسخہ بے چھنے آٹے کی روٹی کی شکل میں دسترخوان کی زینت اور اپنے مینوں کا لازمی جز بنائے پھر دیکھئے چہرے کی رونق 


Comments

Popular posts from this blog

انگور بڑھاپے اور جوانی کے درمیان آہنی دیوار

سبز چائے کے فوائد

کچن سے حسن آیے طریقہ ھم بتاتے ہیں